Tuesday 13 October 2015

محبوب کا بلاوا!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک بار پھر حج کا موسم آ گیا! جن عشاق کو محبوب کا بلاوا آ گیا، وہ جو ق در جوق سوئے حرم روانہ ہو رہے ہیں… لبیک اللّٰہم لبیک کے زمزمے چہاردانگِ عالم میں گونج رہے ہیں… کبھی آپ نے غور کیا کہ ارکانِ اسلام میں حج کس چیز کا اظہار ہے؟
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا قدس سرہ فرماتے ہیں کہ حج نمونہ ہے عشق اور محبت کے اظہار کا… جیسا کہ نماز نمونہ ہے خاص نیازمندی اور عبدیت کے اظہار کا… بندوں کا تعلق حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ان دونوں جہات سے ہے، بندگی کا بھی اور عشق و محبت کا بھی… عشق و محبت کا خوبصورت مظہر حج ہے… گھر بار چھوڑ، عزیز و اقارب سے منہ موڑ اس کوچۂ یار کی طرف جانا ہے اور کس طرح؟…بال بکھیرے، میلے کچیلے، نالہ و فریاد کرتے ہوئے یعنی بقول شاعر
دوست آوارگی ہمی خواہد
رفتنِ حج بہانہ افتاد است
محبوب آوارگی کا نظارہ دیکھنا چاہتا تھا تو حج کے سفر کو اس کا بہانہ بنا دیا!
صعوبتیں جھیلتے ’میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں‘ کی صدائیں لگاتے عشاق وہاں پہنچتے ہیں تو جوش وسرمستی اور تڑپ و بے قراری کے ایسے روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جس کی منظر کشی کے لیے زباں گم صم اور قلم لکھنے سے قاصر ہے… ایک دل کھویا ہوا جب محبوب کے در پر پہنچ جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟یہ کیفیات الفاظ میں بھلا کوئی کیسے بیان کرے؟… غم کے مارے، محبوب کے گھر کو تکتے تکتے ساری کائنات کو حتیٰ کہ اپنا آپ بھول جاتے ہیں… مگر وہ کوئی عام گھر تو نہیں، وہ تو تجلیات الٰہی کا مرکز ہے… بالآخر مشتاق نگاہیں جھک جاتی ہیں اور ایک سیلِ رواں اشکوں کی صورت جاری ہو جاتا ہے:
تابِ نظارۂ معشوق کہاں عاشق کو...
غش نے موسیٰ کو سرِ طور سنبھلنے نہ دیا
پھر ایک پل صبر نہیں ہوتا… لڑکھڑاتے قدم آگے بڑھتے ہیں اور بے تابانہ غلاف ِکعبہ سے چمٹ کرایسے دکھڑے روتے ہیں ، جیسے کوئی کھویا ہوا بچہ اپنی ماں سے مل جائے تو دامن پکڑ کر بلکتاہے…
پائمال کر گیا ہے کوئی دل کو راہ میں
آنکھوں کو مل رہے ہیں کسی نقشِ پا سے ہم
طواف کی ابتدا حجر اسود کے بوسے سے ہے اور ایک حدیثِ پاک میں اسے حق تعالیٰ شانہ کے دستِ مبارک سے تعبیر کیا گیا ہے…یعنی حجر اسود کا بوسہ گویاکریم آقا کی دست بوسی ہے!
اَمُرُّ عَلَی الدِّیَارِدِیَارِ لَیْلٰی اُقَبِّلُ ذَوالْجِدَارِوَذَاالْجِدَارَا
وَمَا حُبُّ الدِّیَارِشَغَفْنَ قَلْبِیْ وَلٰکِنْ حُبُّ مَنْ سَکَنَ الدِّیَارَا
"میں جب لیلیٰ کے شہر پہنچتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں اور کبھی اس دیوار کو، کچھ شہرکی محبت نے میرے دل کو فریفتہ نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی محبت کی کارفرمائی ہے جو شہرکے رہنے والے ہیں!"
حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے حجرِ اسود پر اپنے لب مبارک رکھے اور بہت دیر تک رکھے اور آنسو جاری تھے…اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی کھڑے رو رہے ہیں… حضور eنے ارشاد فرمایا کہ یہی جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں :
زمیں تک مرے آنسو آنے لگے
فلک تک مرے نالے جانے لگے
سارے مناسکِ حج دیکھ لیجیے… ہر منسک سے عشقِ حقیقی کی خوشبو پھوٹتی ہے… صفا مروہ،پھر مکہ سے منیٰ جانا، وہاں سے عرفات کا بیابان، پھر مزدلفہ، وہاں سے پھر منیٰ،منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کرپھر واپس منیٰ لوٹنا… اک اضطراب، اک بے چینی ہے اورکس چیز کی تلاش میں؟… جی ہاں ایک دوست کی چاہت تو صرف دوست کی رضا ہے…مگر صرف مناسکِ حج مکمل کرنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوتا… ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں… ابھی ایک اور عشق کی منزل سے گزرنا ہے… ابھی محبوب کے سب سے پیارے، سید البشرفداہ امی و ابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ جانا ہے… جن کے مبارک چہرے کی برکت سے کفر و شرک کی ہر اندھیری بستی جگمگا اٹھی… ہاں وہی جن کی اتباع پر ہی ربّ دو جہاں کی محبت کا وعدہ ہے…قل ان کنتم …الخ
’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)
تو اے عشق کی راہ کے راہی!… اب اپنے جنون کی نکیل تھام‘ ادب سے قدم اٹھا اور…چل اب سرکار کے مدینے چل…!!

No comments:

Post a Comment