Thursday 15 October 2015

آہ ہمارا مرید خاص بشارت وارثی! (از: شیخ شوخ و مستی)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہم نے شہنشاہ جنات کی خصوصی دعوت پرچار روزہ ارجنٹ دورے پر کوہ قاف اپنے جسم مثالی کو بھیجا تھا... اپنے لنگوٹیے شاہ جنات کی چھوٹی بٹیا کی شادی جو تھی... میر محفل ہمیں بنایا گیا تھا... دو دن شادی کی تیاریوں میں گزرے... کل رات ماونٹ ایورسٹ کی چوٹی پر رخصتی ہو گئی... آج کا دن کنیز پریوں کے ساتھ کوہ قاف گھومنے کا من تھا مگر... یہ کم بخت ہمارے ہمیشہ کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والے خلفاء سارا پروگرام درہم برہم کر دیتے ہیں... عین اس وقت جب کہ دعوت ولیمہ میں ایک کنیز ہماری طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ دیکھ غزل پیش کر رہی تھی:
آئے ہیں شیخ ہمارے
ہائے یہ نصیب ہمارے
اب رہیں گے نہ ہم کنوارے
اور بھی ظالم ابھی کیا کیا کہتی کہ عین اس سنگین و رنگین محفل کے دوران ایک مرید صادق الامین نےعالم خیال میں رابطہ کیا اور عرض کیا کہ آپ کے خلیفہ خاص بلبل امارت بشارت وارثی ( Basharat Warsi ) پر دشمنوں نے آپ کی غیر موجودگی میں چھپ کر وار کیا ہے...اب سب جانتے ہی ہیں کہ ہمیں اپنے نالائق خلفاء کتنے پیارے ہیں... ان پر کروڑوں کنیزیں اور اربوں غزلیں قربان... سو ہم فوراً "ہائے وارثی وائے وارثی" کہتے اپنے جسم مثالی کو وہاں سے نکال لائے... اپنی روحانی آنکھ کو زمین کے اطراف میں دوڑایا تو مغرب سے دشمن کی بدبو ملی...
مگر بہت تاخیر ہو چکی تھی اس وجہ سے بشارت وارثی کا کہیں پتہ نہیں چل پا رہا... تو اے میرے شش رتنو!
زمین کے اطراف میں پھیل جاؤ... اور ڈھونڈ لاؤ میرے وارثی کو!
ورنہ ہم ایسے سینہ کوبی کریں گے کہ خانقاہ شوخ و مستی... خانقاہ حسرت و یاس میں بدل جاوے گی!
ہائے وارثی وائے وارثی!
میرے راج دلارے نے ابھی پچھلے ہفتے ہی ہماری شان میں کیا شاندار قصیدہ کہا تھا... مگر دشمنوں سے ہضم نہیں ہوا!... ملاحظہ ہو:
اونگے بونگے سارے، ایدھر بہہ جائیں
جو کج وی او کہنا چاہیں، کہہ جائیں
سب سے پہلے مرشد پاک دا نام سنو
کٹھے ہو کر سب برکات کے پھول چنو
وغیرہ وغیرہ
پہلے ذرا وارثی بازیاب ہو جائے... پھر دشمنوں کی بوٹی بوٹی کر کے چڑیلوں کے سامنے ڈالی جائے گی! 

ایک معصوم سی الجھن!

ایک معصوم سی الجھن!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سانحہ اسکول پر محبت کے حوالے سے ایک پوسٹ ایک گروپ پر کل پڑھی… قلم کار نے اپنے مخصوص انداز میں نا محرم لڑکے لڑکیوں کے مابین محبت کو ایک فطری جذبہ قراردینے کی ایک خوبصورت کوشش کی ہے… انہوں نے جوانی اور محبت کو لازم و ملزوم قرارد یتے ہوئے جذباتی انداز میں لکھا کہ محبت کو مت کوسو اورنہ مخلوط تعلیم کو… یہ ایک قطعی فطری چیز ہے جس پر کوئی بند نہیں باندھ سکتا… جو انداز اختیار کیا گیا اس سے ایسا لگتا تھا کہ جیسے سو میں سے سو نہ سہی، نوے مردو زن کو ضرور ہی محبت ہو جاتی ہے… پھر اگلے پیراگرف میں اس محبت کو "گھر گرہستی" یعنی میاں بیوی کی پاکیزہ محبت سے جوڑ دیا…! frown emoticon
ان کے علاوہ بھی کئی سینئرز کے بڑے معرکۃ الآرا مضامین اس کم ذات محبت کے حق میں ان دنوں پڑھنے کو ملے… میں ان کو شریعت سے رد نہیں کرتا… نہ سماج اور تاریخ سے اس محبت کے "ثمرات" کی مثالیں لاتا ہوں… نہ میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ نامحرم مرد وعورت کی محبت کو جسم سے علیحدہ کیا ہی نہیں جا سکتا ( کہ اس کی صرف ایک پاکیزہ صورت یعنی رشتہ زوجیت بھی اس جسمانی رشتے سے بالاتر نہیں ہے…)
میرا تو صرف ایک معصوم سا سوال ہے کہ محبت کا یہ پہلو بھی اگر ایسا ہی آفاقی، فطری اور محترم پاکیزہ جذبہ ہے اوراس میں ہوس کی کوئی ملاوٹ، سفلی جذبیات کی کوئی آویزش نہیں ہے…تو … آخر کیا وجہ ہے کہ
جب کوئی مہذب نوجوان نہایت شائستہ طریقے سے بھی ان قائلین محبت کی خواتین کے لیے یہ جذبات ظاہر کرے تو
ان کو فی الفورغصہ آ جاتا ہے؟!
بھلا کیوں؟
کیا وجہ ہے کہ ایک فطری و آفاقی جذبے کے لیے ہمیں تو کوئی ایسا ایثار پیشہ نہیں ملا جو اپنے گھر سے یہ نیک کام شروع کرے… کوئی ہزار میں سے ایک ہی "مرد" ہو گا… اور شایدوہ بھی لالی بالی ووڈ کا فلمی "مرد" ہو گا… جو اپنی بہن کی محبت کو اپنا بہنوئی بنانے کے لیے جان لڑا دے…!
ورنہ ایسی" غیرت" کے مظاہر ہمیں کبھی کہیں ، کسی پست ترین معاشرے میں بھی عام نظر نہیں آتے۔
ایسا کیوں بھئی!
اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے کوئی اور ضابطہ اور دوسروں کے لیے کوئی اور!
٭٭٭
نوٹ: کسی کو خاص طور پر مخاطب کرنے یا نام لینے کی اجازت نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک عمومی سوال ہے، اس کا عمومی جواب دیجیے شکریہ!

علم الگ فرض، عمل الگ فرض!

علم الگ فرض، عمل الگ فرض!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پچھلی پوسٹ پر(جس کا لنک نیچے دیا جا رہا ہے) ہمارے ایک بھائی نے کمنٹ میں ایک اشکال ظاہر کیا اور پھر تین چار غیر معروف بھائیوں نے تو ان باکس میں اچھا خاصا اس بندہ بے قصور کا مذاق اڑایا...
ان کی باتوں کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ:
فرینڈ لسٹ میں حضور کے سینکڑوں خواتین ہوں گی... اور گاہے ان سے ان باکس میں بات چیت کے مزے بھی لوٹتے ہوں گے... کمنٹس میں تو ٹھٹھے لگاتے ہی ہیں... پھر جب خود عمل نہیں کر سکتے تو ایسی بات کر کے لوگوں میں انتشار پھیلانا اور اپنے اوپر منافقت کا لیبل لگانا کیا ٹھیک ہے؟
ایک تو لوگوں کو منافقت اور منافق کی اصطلاح کے بارے میں کچھ خبر نہیں... اس کی تفصیل پھر کبھی... مختصر یہ کہ یہ میں کسی غلط کام کو غلط سمجھتے ہوئے بھی کروں تو یہ گناہ تو ضرور ہو گا مگر منافقت نہیں اور ہاں!
یہ گناہ بھی اپنے نتائج واثرات کے حوالے سے بہرحال اس سے بہت ہی کم ہے... کہ گناہ کو گناہ سمجھا ہی نہ جاوے ، یوں آرام سے اپنے کو بڑا متقی سمجھتے ہوئے سب کچھ کیے جاؤ یہاں تک کہ توبہ کا کبھی خیال تک نہ آئے!
جان رکھو میرے بھائیو، دوستو اور بزرگو! ایک چیز ہے صحیح غلط چیز کا علم!
جائز ناجائز کے علم کا جاننا ایک علیحدہ فرض ہے اور اس کا ثواب بھی الگ ہے۔
اور ایک فرض ہے صحیح علم پر عمل جس کا درجہ ظاہری بات ہے، اولیٰ ہے اور یہ علیحدہ فرض ہے!
میں نے جاننے کی کوشش کی کیوں کہ مجھے اس حدیث کے بارے میں آج پڑھ کر لگا کہ اس حدیث کے مطابق ان نامحرم مرد عورت کا ان باکس بات چیت بھی غلط ہے... سو علماء کرام سے پوچھ لیا!
اب بالفرض تمام محترم علماء کرام کا جواب یہ آ جاتا کہ جی ہاں بالکل حرام ہے... یہ جاننے کے باوجود بھی... میں ان باکس میں خواتین سے بات جاری رکھوں تو کم ازکم غلط سمجھ کر تو کروں گا اور دل اندر ہی اندر ملامت ضرور کرے گا... یہی ملامت ایک دن اس حرکت کو چھوڑنے پر مجبوربھی کر دے گی!
بہرحال اب تک کے جو جوابات آئے ہیں... اس سے یہ معلوم ہوا کہ اجنبی مرد عورت کا بلا ضرورت شدیدہ ان باکس بات چیت انتہائی نامناسب بات ہے... مولانا علی عمران بھائی کے بقول شدید ضرورت کے وقت بھی یہ حکم پس پردہ بات چیت کےقرآنی حکم میں ہے... یعنی خواتین کا لہجہ اور انداز قدرے روکھا اور دو ٹوک ہو... جس طرح لہجے میں ملائمت ہوتی ہے... اسی طرح لکھنے میں بھی جملے کی ملائمت ظاہر ہو جاتی ہے... سو ان باکس اور کمنٹ میں بات چیت اگر نہایت سنجیدہ اوربقدر ضرورت ہو اور بے تکلفی نام کو بھی نہ ہو تو... پھر شاید اس کا جواز ہو سکتا ہے ورنہ اس گئے گزرے دور میں بہرحال خطرے سے خالی تو یہ بھی نہیں!
Ali Imran Gul Saj
٭٭٭
نوٹ پچھلی پوسٹ کا لنک:
https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236/posts/1132584506770691

کتاب شوخۃ السلوک کے دو صفحات سے اہم اقتباسات!

کتاب شوخۃ السلوک کے دو صفحات سے اہم اقتباسات!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شوخۃ السلوک کے صفحہ 95 پر لکھا ہے کہ ادب یہ ہے کہ شیخ کے پاس جاتے ہوئے نذرانے، ہدایے اور تحائف بوری بھر کر لے جانےچاہئیں!
سوکل بروز جمعۃ المبارک ہمارے ت سے تشنہ اور ت سے تصور محبین بواسطہ قراقرم ٹرین ، براستہ فیصل آباد، لاہور ، روہڑی زیارت و قدم بوسی شیخ کی نیت سے شہر زرنگار عروس البلاد کراچی تشریف سمیت آ رہے ہیں!
سنا ہے کہ انہوں نے ریل کا ایک ڈبہ علیحدہ بک کروایا ہے، جس میں شہر چینیوٹ کی سوغاتیں بھری ہوئی ہیں، ہماری خدمت میں پیش کرنے کے لیے... جیتے رہو... سعادت مند ہو بچو!
شوخۃ السلوک ہی کے صفحہ 420 پر یہ بھی لکھا ہے کہ اپنی کم مائیگی کی وجہ سے گر کوئی حرماں نصیب شیخ کی زیارت سے محروم رہے تو وہ شیخ کے خلفاء کی زیارت کر لے... یہ اس کے حق میں ایسا ہی ہے کہ گویا اس نے شیخ کو دیکھ لیا!
سولاہور، خانیوال، روہڑی، حیدرآباد والے احباب گویا ہماری زیارت کے لیے اسٹیشنوں پر تشریف لے جاویں۔ اوروہ ہدایے جو ابھی تک اپنی کم نصیبی کی وجہ سے آپ لوگ اس بندے تک نہیں پہنچا سکے اور اس آرزو میں مرے جا رہے ہیں... اب موقع ہے کہ ان دونوں خوش نصیبوں کو ہمارا نمائندہ خصوصی سمجھ کر تحائف اور نذرانوں کی بوریاں ان کے حوالے کر کے شوخ و مستی میں کمال حاصل کرنے کی اپنی سی سعی ضرور کریں!... شاید آپ میں سے کسی کی لاٹری اوہ سوری نصیب کھل جائیں!
٭٭٭
(ویسے آپس کی بات ہے کہ کچھ بھی دینے کے بعد رسید لینا نہ بھولیے گا... دراصل لکھت پڑھت اچھی چیز ہے ناں بھیا! smile emoticon )

Wednesday 14 October 2015

نیک دل کفار کے بارے میں ایک وسوسہ!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک خیال یا وسوسہ کہہ لیجیے،جو تقریباً ہر مسلمان کے دل میں کبھی نہ کبھی آتا ہی ہے اور اکثر جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کو تو بہت ہی تنگ کرتا ہے... جس کا اظہار اکثر فیس بک پر بھی ان کے اسٹیٹس کی صورت نظر آتا رہتا ہے...!
شبہ دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے محض نام کے مسلمان حد درجے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں، انہوں نے ظلم وستم کا بازار گرم کر کے مخلوق خدا کا جینا حرام کر رکھا ہے... کسی بے بس کی عزت لوٹی، کسی غریب کا مال دبایا... غرض ایسے بھیانک ظلم کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے... مگرہم سنتے ہیں کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اگر سزا ملی بھی تو کچھ عرصے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں جا کر مزے کرے گا!
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کافر ہیں... مگر نہایت رحم دل اور بااخلاق... وہ لوگ اپنی پوری زندگی اور سب کچھ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے لگا دیتے ہیں... دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں مگر پاک و ہند سے صرف دو مثالیں لیجیے... ایک ہندوستان کی مدر ٹریسا اور دوسری پاکستان کی ڈاکٹر روتھ فاؤ جنہوں نے جذام کے ان مریضوں کے لیےاپنا ملک،عیش وعشرت، اپنی جوانی، اپنی دولت، اپنی زندگی کھپا دی، جن کو ہم شاید ایک نظر دیکھ کر کراہت سے دوسری نگاہ بھی نہ ڈالیں...!
مگر چونکہ بہرحال یہ کافر ہیں... اور ہم سنتے آئے ہیں کہ کافر کو اس کی اچھائی کا دنیا میں ہی بدلہ دے دیا جائے گا مگر آخرت میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جلے گا!... سو یہ سارے کافر بھی ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ کی نذر!
اب شیطان یہ وسوسہ ہمارے دل میں ڈالتا ہے کہ یا تو نعوذ باللہ، اللہ رب العزت ظالم ہیں!... کہ ایسے رحم دل کو ایمان والوں کے گھر پیدا نہیں کیا اور اب یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جلیں گے!
یا پھر... دخول جنت کے لیے کلمے والی یعنی ایمان مجمل و مفصل کی شرط غلط ہے... پھر وہ مختلف دور از تاویلات اور احتمالات پیش کر کے کافروں کے لیے ایمانیات کی لازمی شرط پوری کیے بغیر بھی جنت کے در وا کر دیتا ہے!
جیسا کہ سسٹر صدف انصاف نے پچھلے دنوں قاری ڈار صاحب کی ایک پوسٹ اپنی تائید کے ساتھ شیئر کی تھی۔
آئیے اب اس شبہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
٭٭٭
سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم پڑھیے: فرمایا کہ حشر کے دن بہت سے ایسے لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار کر مرے ہوں، مسلمانوں کی صف میں نظر آئیں گے اور بہت سے مسلمان نام والے کافروں کی صف میں نظر آئیں گے...!
ایسا کیسے اور کیوں ہوگا؟
ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت لطیف بھی ہے... یعنی باریک بیں... وہ دلوں کے ہر بھید سے بخوبی واقف ہیں اور وہ بے حد قدردان بھی ہیں... چھوٹی سے چھوٹی بات ان کے سامنے ہے... ذرہ برابر بلکہ ذرے کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خیر یا شر ایسا نہیں، جو اس علیم و خبیر و بصیرذات سے چھپا ہوا ہو!
سو کافر اگر "متعصب یا مغرور" نہ ہو اور اس کی کوئی نیکی، کوئی ایک ادا رب تعالیٰ کو پسند آ جائےتو اسے بلا کسی ظاہری سبب کے بھی ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں... پھر یہ ایمان کبھی تو ظاہر ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی رسول نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں 300 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تو میری اس نیکی کا اجر مجھے کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی گئی، یہی تو اس کا اجر ہے!
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے نیک دل غیر مسلموں کے ایمان کی کسی کو خبر نہ ہو... یا تو اس وجہ سے کہ انہیں موت سے قبل ہی ایمان لانے کی توفیق ملی ہو... جس پر بندہ اور اس کا رب ہی واقف ہوں ... یہ "قبل "نزع کے عالم سے گھنٹہ بھر پہلے بھی ہو سکتا ہے اور ایک دن قبل بھی... اور اگر کچھ عرصہ پہلے بھی ہدایت کی توفیق ہو تو ممکن ہے کہ کسی شرعی عذر اور مصلحت کی وجہ سے بھی چھپایا گیا ہو!
البتہ تعصب ، ضد، نسلی فخر اور تکبر ایسی بری صفات ہیں کہ ان کا خناس دل میں ہو تو سر کی آنکھوں سے توحید و رسالت کی حقانیت دیکھ کر بھی ایمان کی توفیق نہیں ہوتی... اپنی آنکھوں سے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر دل نے یقین کر لیا مگر ضد اور قومی تعصب کی وجہ سے اسلام کی توفیق نہیں ملی... اسی طرح نہایت نیک دل چچا، عظیم المرتبت بھتیجے کی سچائی کے دل سے معترف مگر قومی حمیت کی وجہ سے ایمان کی توفیق نہیں ہوئی! 
سو ان بری صفات کے حامل کافر نے کچھ نیک اعمال بھی کیے ہوں... تو ان کو ایمان کی توفیق تو نہیں ہوتی مگر ان نیک اعمال کو ضایع پھر بھی نہیں کیا جاتا... ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ اکثر تو اسی دنیا میں دے دیتے ہیں کہ نزع کے عالم سے پہلے اس کی ناممکنات خواہشات بھی بعض اوقات پوری کر دیتے ہیں... جب کہ بعض کافروں کے نیک اعمال کی بدولت انہیں آخرت میں بھی فائدہ ہوتا ہے... کہ ان پر عذاب کی تخفیف کر دی جاتی ہے! 
٭٭٭
یہ تو ہوئی کافر کی تفصیل... اب مسلمانوں کی بات لیجیے:
احادیث مبارکہ میں کئی ایسے گناہ کبیرہ بھی بتائے گئے ہیں جن کو ہلکا جاننے یا ان پر اصرار کی وجہ سے یا پھر دین کے کسی حکم کو کمتر جاننے سے مرتے وقت کلمہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ کی موت ہی ایسی آتی ہے کہ مرنے سے قبل کوئی کلمہ کفر کہہ دیا اور یوں کفر پر موت آ گئی... العیاذ باللہ! (اللھم احفظنا منھم)
احادیث میں اور اسلاف کی کتابوں میں ایسے کئی بدنصیبوں کے واقعات موجود ہیں... اور ایک نہایت عبرت انگیز واقعہ تو ستر سال قبل 1935 کا بھی ہے جس کو آنکھوں سے دیکھنے والے اور اخبار میں پڑھنے والے آج بھی زندہ ہیں۔ (جس کی تفصیل الگ پوسٹ پر ان شاء اللہ)
٭٭٭
سوقصہ مختصر! ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، اس لیے ہمیں اصولی بات عمومی انداز میں کرنی چاہیے... کیا پتہ جن نیک دل کفار کے نیک اعمال سے متاثر ہو کر ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ اے کاش یہ جہنم میں نہ جائیں تو... 
واقعی ان کو آخری وقت منجانب اللہ ہدایت مل جاوے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر احسان کرنے والوں کے آپ سے زیادہ قدردان ہیں... وہ دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں... اگر اس کے عدل میں وہ شخص ایمان کی دولت عظمیٰ کا حقدار ہو گا تو اسے ہدایت مل کر رہے گی، چاہے اس سے کوئی دوجا واقف ہو یا نہ ہو مگر...!
مگر چونکہ یقینی طور پر کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکتا... اس لیے تعین کے ساتھ کسی کا محض ظاہر دیکھ کر یہ کہنا کہ فلاں کافر بڑے فلاحی کام کرتا تھا، سو وہ جنت میں جائے گا، بڑی جرات کی بات ہے اور اللہ کی سنت کو جھٹلانے کی بات ہے، ہم کسی کے ایمان سے واقف نہیں...
بالکل اسی طرح کسی مسلمان کی بدعملیوں اور ظلم کو دیکھ کر بھی ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ضرور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلے گا... ہو سکتا ہے کہ اللہ کے علم میں وہ اتنا برا نہ ہو کہ اس سے ایمان کی دولت ہی چھین لی جاوے!
اس لیے میرے دوستو! یقینی اور حتمی بات جاننے کے لیے حشر کے دن کا انتظار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں!

نیک دل کفار کے بارے میں ایک وسوسہ!

نیک دل کفار کے بارے میں ایک وسوسہ!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک خیال یا وسوسہ کہہ لیجیے،جو تقریباً ہر مسلمان کے دل میں کبھی نہ کبھی آتا ہی ہے اور اکثر جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کو تو بہت ہی تنگ کرتا ہے... جس کا اظہار اکثر فیس بک پر بھی ان کے اسٹیٹس کی صورت نظر آتا رہتا ہے...!
شبہ دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے محض نام کے مسلمان حد درجے گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں، انہوں نے ظلم وستم کا بازار گرم کر کے مخلوق خدا کا جینا حرام کر رکھا ہے... کسی بے بس کی عزت لوٹی، کسی غریب کا مال دبایا... غرض ایسے بھیانک ظلم کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگائے... مگرہم سنتے ہیں کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اگر سزا ملی بھی تو کچھ عرصے کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت میں جا کر مزے کرے گا!
دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بعض کافر ہیں... مگر نہایت رحم دل اور بااخلاق... وہ لوگ اپنی پوری زندگی اور سب کچھ مخلوق خدا کی خدمت کے لیے لگا دیتے ہیں... دنیا میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں مگر پاک و ہند سے صرف دو مثالیں لیجیے... ایک ہندوستان کی مدر ٹریسا اور دوسری پاکستان کی ڈاکٹر روتھ فاؤ جنہوں نے جذام کے ان مریضوں کے لیےاپنا ملک،عیش وعشرت، اپنی جوانی، اپنی دولت، اپنی زندگی کھپا دی، جن کو ہم شاید ایک نظر دیکھ کر کراہت سے دوسری نگاہ بھی نہ ڈالیں...!
مگر چونکہ بہرحال یہ کافر ہیں... اور ہم سنتے آئے ہیں کہ کافر کو اس کی اچھائی کا دنیا میں ہی بدلہ دے دیا جائے گا مگر آخرت میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم میں جلے گا!... سو یہ سارے کافر بھی ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ کی نذر!
اب شیطان یہ وسوسہ ہمارے دل میں ڈالتا ہے کہ یا تو نعوذ باللہ، اللہ رب العزت ظالم ہیں!... کہ ایسے رحم دل کو ایمان والوں کے گھر پیدا نہیں کیا اور اب یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیش کے لیے جلیں گے!
یا پھر... دخول جنت کے لیے کلمے والی یعنی ایمان مجمل و مفصل کی شرط غلط ہے... پھر وہ مختلف دور از تاویلات اور احتمالات پیش کر کے کافروں کے لیے ایمانیات کی لازمی شرط پوری کیے بغیر بھی جنت کے در وا کر دیتا ہے!
جیسا کہ سسٹر صدف انصاف نے پچھلے دنوں قاری ڈار صاحب کی ایک پوسٹ اپنی تائید کے ساتھ شیئر کی تھی۔
آئیے اب اس شبہ کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:
٭٭٭
سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم پڑھیے: فرمایا کہ حشر کے دن بہت سے ایسے لوگ جو ساری زندگی کفر میں گزار کر مرے ہوں، مسلمانوں کی صف میں نظر آئیں گے اور بہت سے مسلمان نام والے کافروں کی صف میں نظر آئیں گے...!
ایسا کیسے اور کیوں ہوگا؟
ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت لطیف بھی ہے... یعنی باریک بیں... وہ دلوں کے ہر بھید سے بخوبی واقف ہیں اور وہ بے حد قدردان بھی ہیں... چھوٹی سے چھوٹی بات ان کے سامنے ہے... ذرہ برابر بلکہ ذرے کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خیر یا شر ایسا نہیں، جو اس علیم و خبیر و بصیرذات سے چھپا ہوا ہو!
سو کافر اگر "متعصب یا مغرور" نہ ہو اور اس کی کوئی نیکی، کوئی ایک ادا رب تعالیٰ کو پسند آ جائےتو اسے بلا کسی ظاہری سبب کے بھی ایمان کی توفیق دے دیتے ہیں... پھر یہ ایمان کبھی تو ظاہر ہو جاتا ہے جیسا کہ ایک صحابی رسول نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں 300 بچیوں کو زندہ درگور ہونے سے بچایا تو میری اس نیکی کا اجر مجھے کیا ملے گا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں اسلام لانے کی توفیق دی گئی، یہی تو اس کا اجر ہے!
اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے نیک دل غیر مسلموں کے ایمان کی کسی کو خبر نہ ہو... یا تو اس وجہ سے کہ انہیں موت سے قبل ہی ایمان لانے کی توفیق ملی ہو... جس پر بندہ اور اس کا رب ہی واقف ہوں ... یہ "قبل "نزع کے عالم سے گھنٹہ بھر پہلے بھی ہو سکتا ہے اور ایک دن قبل بھی... اور اگر کچھ عرصہ پہلے بھی ہدایت کی توفیق ہو تو ممکن ہے کہ کسی شرعی عذر اور مصلحت کی وجہ سے بھی چھپایا گیا ہو!
البتہ تعصب ، ضد، نسلی فخر اور تکبر ایسی بری صفات ہیں کہ ان کا خناس دل میں ہو تو سر کی آنکھوں سے توحید و رسالت کی حقانیت دیکھ کر بھی ایمان کی توفیق نہیں ہوتی... اپنی آنکھوں سے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھ کر دل نے یقین کر لیا مگر ضد اور قومی تعصب کی وجہ سے اسلام کی توفیق نہیں ملی... اسی طرح نہایت نیک دل چچا، عظیم المرتبت بھتیجے کی سچائی کے دل سے معترف مگر قومی حمیت کی وجہ سے ایمان کی توفیق نہیں ہوئی! 
سو ان بری صفات کے حامل کافر نے کچھ نیک اعمال بھی کیے ہوں... تو ان کو ایمان کی توفیق تو نہیں ہوتی مگر ان نیک اعمال کو ضایع پھر بھی نہیں کیا جاتا... ان کا بدلہ اللہ تعالیٰ اکثر تو اسی دنیا میں دے دیتے ہیں کہ نزع کے عالم سے پہلے اس کی ناممکنات خواہشات بھی بعض اوقات پوری کر دیتے ہیں... جب کہ بعض کافروں کے نیک اعمال کی بدولت انہیں آخرت میں بھی فائدہ ہوتا ہے... کہ ان پر عذاب کی تخفیف کر دی جاتی ہے! 
٭٭٭
یہ تو ہوئی کافر کی تفصیل... اب مسلمانوں کی بات لیجیے:
احادیث مبارکہ میں کئی ایسے گناہ کبیرہ بھی بتائے گئے ہیں جن کو ہلکا جاننے یا ان پر اصرار کی وجہ سے یا پھر دین کے کسی حکم کو کمتر جاننے سے مرتے وقت کلمہ کی توفیق چھین لی جاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ کی موت ہی ایسی آتی ہے کہ مرنے سے قبل کوئی کلمہ کفر کہہ دیا اور یوں کفر پر موت آ گئی... العیاذ باللہ! (اللھم احفظنا منھم)
احادیث میں اور اسلاف کی کتابوں میں ایسے کئی بدنصیبوں کے واقعات موجود ہیں... اور ایک نہایت عبرت انگیز واقعہ تو ستر سال قبل 1935 کا بھی ہے جس کو آنکھوں سے دیکھنے والے اور اخبار میں پڑھنے والے آج بھی زندہ ہیں۔ (جس کی تفصیل الگ پوسٹ پر ان شاء اللہ)
٭٭٭
سوقصہ مختصر! ہم تو ظاہر کے مکلف ہیں، اس لیے ہمیں اصولی بات عمومی انداز میں کرنی چاہیے... کیا پتہ جن نیک دل کفار کے نیک اعمال سے متاثر ہو کر ہمارے اندر یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ اے کاش یہ جہنم میں نہ جائیں تو... 
واقعی ان کو آخری وقت منجانب اللہ ہدایت مل جاوے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر احسان کرنے والوں کے آپ سے زیادہ قدردان ہیں... وہ دلوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہیں... اگر اس کے عدل میں وہ شخص ایمان کی دولت عظمیٰ کا حقدار ہو گا تو اسے ہدایت مل کر رہے گی، چاہے اس سے کوئی دوجا واقف ہو یا نہ ہو مگر...!
مگر چونکہ یقینی طور پر کسی کو اس کا علم نہیں ہو سکتا... اس لیے تعین کے ساتھ کسی کا محض ظاہر دیکھ کر یہ کہنا کہ فلاں کافر بڑے فلاحی کام کرتا تھا، سو وہ جنت میں جائے گا، بڑی جرات کی بات ہے اور اللہ کی سنت کو جھٹلانے کی بات ہے، ہم کسی کے ایمان سے واقف نہیں...
بالکل اسی طرح کسی مسلمان کی بدعملیوں اور ظلم کو دیکھ کر بھی ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ضرور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلے گا... ہو سکتا ہے کہ اللہ کے علم میں وہ اتنا برا نہ ہو کہ اس سے ایمان کی دولت ہی چھین لی جاوے!
اس لیے میرے دوستو! یقینی اور حتمی بات جاننے کے لیے حشر کے دن کا انتظار کیے بغیر کوئی چارہ نہیں!

7 ستمبر یوم ختم نبوت پر ایک خاص درود شریف!

7 ستمبر یوم ختم نبوت پر ایک خاص درود شریف!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک درود جو 'تنجینا' کہلاتا ہے، یعنی نجات دینے والا درود۔ اس کے متعلق حضرت شیخ نے فضائل درود شریف میں ایک نیک صالح بزرگ حضرت ''موسیٰ ضریر'' رحمۃ اللہ علیہ کا قصہ تحریر فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں: ''ایک جہاز ڈوبنے لگا اور میں اس میں موجود تھا، اس وقت مجھ کو غنودگی سی ہوئی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یہ درود (تنجینا) تعلیم فرمایا کہ جہاز والے اس کو پڑھیں، جس کے پڑھنے سے جہاز ڈوبنے سے بچ گیا۔''
اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمّدٍ صَلٰوۃً تُنْجِیْنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ الْاَھْوَالِ وَالْاٰفَاتِ
وَتَقْضِی لَنَا بِھَا جَمِیْعَ الْحَاجَاتِ وَتُطَہِّرْنَا بِھَا مِنْ جَمِیْعِ السَّیِّئَاتِ وَتَرْفَعْنَا بِھَا عِنْدَکَ اَعْلَی الدَّرَجَاتِ وَتُبَلِّغْنَا بِھَا
اَقْصَی الْغَایَاتِ مِنْ جَمِیْعِ الْخَیْرَاتِ فِی الْحَیَاتِ وَبَعْدَ الْمَمَاتِ إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
''اے اللہ تو ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے سردار اور ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد پر رحمت نازل فرما، ایسی رحمت کہ جس کے ذریعے تو ہمیں سارے خطرات اور آفتوں سے نجات عطا فرمائے اور جس کے ذریعے تو ہماری ساری ضرورتوں کو پورا کرے اور جس کے ذریعے تو ہمیں سارے گناہوں سے پاک کرے اور جس کے ذریعے تو ہمارے درجوں کو اپنے ہاں بلند کرے اور جس کے ذریعے تو ہمیں زندگی میں اور موت کے بعد کی ساری بھلائیوں کے منتہائے مقاصد تک پہنچادے۔ بے شک تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔''
شبِ جمعۃ المبارک 8 محرم الحرام 1431ھ کو مدینہ منورہ میں ایک متبع سنت سید بزرگ کو حضور اقدس رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میرے محبوب 'حسین احمد مدنی'کے وظیفے (درود شریف تنجینا) کو خوب پھیلائیں۔ خصوصاً پاکستان میں جو حالات ہیں اس کے لیے خصوصاً اہتمام سے یہ وظیفہ پڑھیں، پھر فرمایا عزیز الرحمن (ہزاروی) سے کہیں، اس وظیفے کو اپنے حلقہ اور عوام میں پھیلائیں۔
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید ''حسین احمد مدنی'' رحمۃ اللہ علیہ آفات سے حفاظت کے لیے یہ وظیفہ روزانہ بعد عشاء 70 بار پڑھنے کو فرمایا کرتے تھے۔ (مکتوبات شیخ الاسلام ص 95)
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے 'زاد السعید'میں اور ان کے خلیفہ حضرت ڈاکٹر عبدالحئی صاحب نے اپنی کتاب 'اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ' میں لکھا ہے کہ اس درود شریف کا کثرت سے پڑھنا اور مکان میں چسپا کرنا تمام امراض وبائیہ، ہیضہ وطاعون وغیرہ سے حفاظت کے لیے مفید اور مجرب ہے اور قلب کو عجیب وغریب اطمینان بخشتا ہے۔ اس کی برکات بے شمار ہیں۔
7 ستمبر یوم ختم نبوت کو سرکار دو عالم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم (روحی فداہ امی و ابی) کو کم ازکم 5 بار درود تنجینا کا ہدیہ پیش کیجیے۔
محمد فیصل شہزاد

ناجائز Love کی خرمستیاں!

ناجائز Love کی خرمستیاں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نئے زمانے کی نئی لغت میں "Lovers" کے ناجائز "Love" کی نشانیوں کو حرامی یا ناجائز نہیں بلکہ Love child کا خوبصورت نام دیا گیا ہے...نئے دور نے ہرغلاظت کو لیپا پوتی کر کے، اسے خوبصورت نام اور شکل دے کر خوشی خوشی لوگوں کو نگلنےپر آمادہ کردیا ہے!
لو چائلڈ کی طرح انڈیا میں ایک اور اصطلاح کا بڑا چرچا ہے... لو جہاد!!
یعنی مسلمان لڑکوں کا ہندو لڑکیوں سے محبت کر کے انہیں مسلمان کر کے شادی کرنا!
اس کے جواب میں ہندو پیکج لائے ہیں "گھر واپسی کا"!
ان کے بقول اکثر ہندوستانی مسلمانوں کے آباؤاجداد ہندو تھے، اس لیے اب انہیں دوبارہ واپس آنا چاہیے۔ اس کے لیے ان کا بھی طریقہ یہی ہے کہ مسلمان لڑکیوں کو ہندو بنا کر ان سے شادی کر لی جائے! unsure emoticon
٭٭٭
سوال یہ ہے کہ یہ سب لڑکیوں کے ذریعے ہی اپنے دین میں اضافہ کرنے پر کیوں تل گئے ہیں؟
مرد تبلیغ سے فارغ ہو گئے کیا؟

یکم محرم الحرام کو تعطیل

یکم محرم الحرام کو تعطیل!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کل 13 اکتوبر کو جیسے ہی یہ خبر سنی کہ قائم علی شاہ نے سید نا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت پر سرکاری تعطیل کا اعلان کر دیا تو فوری طور پر میرے دل میں مسرت کی ایک لہر اٹھی... واہ یہ ہوئی ناں بات!
مگر کچھ ہی دیر میں جب جذبات کچھ مدہم ہوئے اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے طبعی محبت کا جوش کم ہوکر عقلی محبت غالب آئی تو میں کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا!
اہل حق میں سب سے پہلے سپاہ صحابہ نے اہل باطل کے مقابلے میں چند بزرگوں کی یوم پیدائش یا وفات پر تعطیل کرنے یا دوسرے الفاظ میں دن منانے کی مہم چلائی...بظاہر یہ بات اپنے ظاہر میں کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو مگر... مجھے کبھی ہضم نہ ہوئی... بریلوی حضرات کے مولود شریف منانے کی رد میں بچپن سے علماء کرام کے جو دلائل سنے، وہ سب اس مہم کی وجہ سے باطل ثابت ہو رہے تھے...
یہ طریقہ کہ اہل باطل ایک کام اپنے بزرگوں کے لیے کرتے ہیں تو اہل حق بھی شریعت کی منشا و مزاج کو دیکھے بغیر ان کی ضد میں وہی کام اپنے بزرگوں کے نام پر کرنا شروع کر دیں...بلاشبہ ایک بچکانہ عمل اور اپنے انہی بزرگوں کے قول و فعل سے بلا دلیل رجوع کا ثبوت ہے۔
باطل کا مقابلہ کرنے کا یہ طریقہ اپنی کنہ میں ایجابی و مثبت نہیں بلکہ منفی طریقہ ہے... اصل طریقہ تو یہ ہے کہ ہم اس بات پر محنت کریں کہ جو لوگ "دن" منانے کے نام پر دنوں اور ہفتوں پورے ملک کا کاروبار زندگی معطل رکھتے ہیں... سڑکوں اور عوامی مقامات کو یرغمال بنائے رکھتے ہیں... ہم ان کے یہ سراسر غیر شرعی و غیر آئینی اقدامات کو ختم کروائیں اور عبادات و مذہبی رسوم سڑک سے چار دیواری میں منتقل کروائیں... لیکن ہم خود سڑک پر آ گئے ہیں... ہمیں چاہیے تھا کہ دین اور بزرگوں کے نام پر غیر ضروری چھٹیاں ختم کروائیں... مگر ہم خود اپنے پیاروں کے "نام" پیش کر دیں کہ ان کے نام پر بھی تعطیل کر دی جائے...
معذرت کے ساتھ یہ ہرگز مناسب نہیں ہے!
پھر ہمارے ہاں ایک دو شہید یا بزرگ تو نہیں... اگر اس طرح منانے پر آ گئے تو سال میں بمشکل چھے ماہ ہی کام ہوا کرے گا، ورنہ پھر چھٹیاں ہی چھٹیاں!
چھٹیاں کر کے فیس بک پر لگے رہو یا غیبتیں کرو!
تبلیغ یا جہاد میں تو کسی کو نکلنا نہیں۔۔۔۔

Tuesday 13 October 2015

علم الگ فرض، عمل الگ فرض!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پچھلی پوسٹ پر(جس کا لنک نیچے دیا جا رہا ہے) ہمارے ایک بھائی نے کمنٹ میں ایک اشکال ظاہر کیا اور پھر تین چار غیر معروف بھائیوں نے تو ان باکس میں اچھا خاصا اس بندہ بے قصور کا مذاق اڑایا...
ان کی باتوں کا لب لباب کچھ یوں تھا کہ:
فرینڈ لسٹ میں حضور کے سینکڑوں خواتین ہوں گی... اور گاہے ان سے ان باکس میں بات چیت کے مزے بھی لوٹتے ہوں گے... کمنٹس میں تو ٹھٹھے لگاتے ہی ہیں... پھر جب خود عمل نہیں کر سکتے تو ایسی بات کر کے لوگوں میں انتشار پھیلانا اور اپنے اوپر منافقت کا لیبل لگانا کیا ٹھیک ہے؟
ایک تو لوگوں کو منافقت اور منافق کی اصطلاح کے بارے میں کچھ خبر نہیں... اس کی تفصیل پھر کبھی... مختصر یہ کہ یہ میں کسی غلط کام کو غلط سمجھتے ہوئے بھی کروں تو یہ گناہ تو ضرور ہو گا مگر منافقت نہیں اور ہاں!
یہ گناہ بھی اپنے نتائج واثرات کے حوالے سے بہرحال اس سے بہت ہی کم ہے... کہ گناہ کو گناہ سمجھا ہی نہ جاوے ، یوں آرام سے اپنے کو بڑا متقی سمجھتے ہوئے سب کچھ کیے جاؤ یہاں تک کہ توبہ کا کبھی خیال تک نہ آئے!
جان رکھو میرے بھائیو، دوستو اور بزرگو! ایک چیز ہے صحیح غلط چیز کا علم!
جائز ناجائز کے علم کا جاننا ایک علیحدہ فرض ہے اور اس کا ثواب بھی الگ ہے۔
اور ایک فرض ہے صحیح علم پر عمل جس کا درجہ ظاہری بات ہے، اولیٰ ہے اور یہ علیحدہ فرض ہے!
میں نے جاننے کی کوشش کی کیوں کہ مجھے اس حدیث کے بارے میں آج پڑھ کر لگا کہ اس حدیث کے مطابق ان نامحرم مرد عورت کا ان باکس بات چیت بھی غلط ہے... سو علماء کرام سے پوچھ لیا!
اب بالفرض تمام محترم علماء کرام کا جواب یہ آ جاتا کہ جی ہاں بالکل حرام ہے... یہ جاننے کے باوجود بھی... میں ان باکس میں خواتین سے بات جاری رکھوں تو کم ازکم غلط سمجھ کر تو کروں گا اور دل اندر ہی اندر ملامت ضرور کرے گا... یہی ملامت ایک دن اس حرکت کو چھوڑنے پر مجبوربھی کر دے گی!
بہرحال اب تک کے جو جوابات آئے ہیں... اس سے یہ معلوم ہوا کہ اجنبی مرد عورت کا بلا ضرورت شدیدہ ان باکس بات چیت انتہائی نامناسب بات ہے... مولانا علی عمران بھائی کے بقول شدید ضرورت کے وقت بھی یہ حکم پس پردہ بات چیت کےقرآنی حکم میں ہے... یعنی خواتین کا لہجہ اور انداز قدرے روکھا اور دو ٹوک ہو... جس طرح لہجے میں ملائمت ہوتی ہے... اسی طرح لکھنے میں بھی جملے کی ملائمت ظاہر ہو جاتی ہے... سو ان باکس اور کمنٹ میں بات چیت اگر نہایت سنجیدہ اوربقدر ضرورت ہو اور بے تکلفی نام کو بھی نہ ہو تو... پھر شاید اس کا جواز ہو سکتا ہے ورنہ اس گئے گزرے دور میں بہرحال خطرے سے خالی تو یہ بھی نہیں!
Ali Imran Gul Saj
٭٭٭
نوٹ پچھلی پوسٹ کا لنک:
https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236/posts/1132584506770691
محبوب کا بلاوا!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایک بار پھر حج کا موسم آ گیا! جن عشاق کو محبوب کا بلاوا آ گیا، وہ جو ق در جوق سوئے حرم روانہ ہو رہے ہیں… لبیک اللّٰہم لبیک کے زمزمے چہاردانگِ عالم میں گونج رہے ہیں… کبھی آپ نے غور کیا کہ ارکانِ اسلام میں حج کس چیز کا اظہار ہے؟
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا قدس سرہ فرماتے ہیں کہ حج نمونہ ہے عشق اور محبت کے اظہار کا… جیسا کہ نماز نمونہ ہے خاص نیازمندی اور عبدیت کے اظہار کا… بندوں کا تعلق حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ ان دونوں جہات سے ہے، بندگی کا بھی اور عشق و محبت کا بھی… عشق و محبت کا خوبصورت مظہر حج ہے… گھر بار چھوڑ، عزیز و اقارب سے منہ موڑ اس کوچۂ یار کی طرف جانا ہے اور کس طرح؟…بال بکھیرے، میلے کچیلے، نالہ و فریاد کرتے ہوئے یعنی بقول شاعر
دوست آوارگی ہمی خواہد
رفتنِ حج بہانہ افتاد است
محبوب آوارگی کا نظارہ دیکھنا چاہتا تھا تو حج کے سفر کو اس کا بہانہ بنا دیا!
صعوبتیں جھیلتے ’میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں‘ کی صدائیں لگاتے عشاق وہاں پہنچتے ہیں تو جوش وسرمستی اور تڑپ و بے قراری کے ایسے روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں، جس کی منظر کشی کے لیے زباں گم صم اور قلم لکھنے سے قاصر ہے… ایک دل کھویا ہوا جب محبوب کے در پر پہنچ جاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟یہ کیفیات الفاظ میں بھلا کوئی کیسے بیان کرے؟… غم کے مارے، محبوب کے گھر کو تکتے تکتے ساری کائنات کو حتیٰ کہ اپنا آپ بھول جاتے ہیں… مگر وہ کوئی عام گھر تو نہیں، وہ تو تجلیات الٰہی کا مرکز ہے… بالآخر مشتاق نگاہیں جھک جاتی ہیں اور ایک سیلِ رواں اشکوں کی صورت جاری ہو جاتا ہے:
تابِ نظارۂ معشوق کہاں عاشق کو...
غش نے موسیٰ کو سرِ طور سنبھلنے نہ دیا
پھر ایک پل صبر نہیں ہوتا… لڑکھڑاتے قدم آگے بڑھتے ہیں اور بے تابانہ غلاف ِکعبہ سے چمٹ کرایسے دکھڑے روتے ہیں ، جیسے کوئی کھویا ہوا بچہ اپنی ماں سے مل جائے تو دامن پکڑ کر بلکتاہے…
پائمال کر گیا ہے کوئی دل کو راہ میں
آنکھوں کو مل رہے ہیں کسی نقشِ پا سے ہم
طواف کی ابتدا حجر اسود کے بوسے سے ہے اور ایک حدیثِ پاک میں اسے حق تعالیٰ شانہ کے دستِ مبارک سے تعبیر کیا گیا ہے…یعنی حجر اسود کا بوسہ گویاکریم آقا کی دست بوسی ہے!
اَمُرُّ عَلَی الدِّیَارِدِیَارِ لَیْلٰی اُقَبِّلُ ذَوالْجِدَارِوَذَاالْجِدَارَا
وَمَا حُبُّ الدِّیَارِشَغَفْنَ قَلْبِیْ وَلٰکِنْ حُبُّ مَنْ سَکَنَ الدِّیَارَا
"میں جب لیلیٰ کے شہر پہنچتا ہوں تو کبھی اس دیوار کو چومتا ہوں اور کبھی اس دیوار کو، کچھ شہرکی محبت نے میرے دل کو فریفتہ نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی محبت کی کارفرمائی ہے جو شہرکے رہنے والے ہیں!"
حدیث میں آتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے حجرِ اسود پر اپنے لب مبارک رکھے اور بہت دیر تک رکھے اور آنسو جاری تھے…اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی کھڑے رو رہے ہیں… حضور eنے ارشاد فرمایا کہ یہی جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں :
زمیں تک مرے آنسو آنے لگے
فلک تک مرے نالے جانے لگے
سارے مناسکِ حج دیکھ لیجیے… ہر منسک سے عشقِ حقیقی کی خوشبو پھوٹتی ہے… صفا مروہ،پھر مکہ سے منیٰ جانا، وہاں سے عرفات کا بیابان، پھر مزدلفہ، وہاں سے پھر منیٰ،منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کرپھر واپس منیٰ لوٹنا… اک اضطراب، اک بے چینی ہے اورکس چیز کی تلاش میں؟… جی ہاں ایک دوست کی چاہت تو صرف دوست کی رضا ہے…مگر صرف مناسکِ حج مکمل کرنے سے یہ مقصود حاصل نہیں ہوتا… ابھی تو عشق کے امتحاں اور بھی ہیں… ابھی ایک اور عشق کی منزل سے گزرنا ہے… ابھی محبوب کے سب سے پیارے، سید البشرفداہ امی و ابی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے مدینہ منورہ جانا ہے… جن کے مبارک چہرے کی برکت سے کفر و شرک کی ہر اندھیری بستی جگمگا اٹھی… ہاں وہی جن کی اتباع پر ہی ربّ دو جہاں کی محبت کا وعدہ ہے…قل ان کنتم …الخ
’’آپ فرمادیجیے کہ اگر تم خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور اللہ تعالیٰ غفورالرحیم ہیں۔‘‘ (بیان القرآن)
تو اے عشق کی راہ کے راہی!… اب اپنے جنون کی نکیل تھام‘ ادب سے قدم اٹھا اور…چل اب سرکار کے مدینے چل…!!
اردو میں دخیل انگریزی الفاظ کا غیر ضروری ترجمہ!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کل سپریم کورٹ کے، قومی زبان اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے نہایت خوش آئند فیصلے کی بابت کتاب چہرہ پر مفید بحث چل رہی ہے... ایک بحث یہ ہے کہ اردو کو سرکار اور تعلیم کی زبان قرار دینے کے بعد جو مسائل سامنے آئیں گے، اس میں سرفہرست انگریزی زبان جو اب تک سرکارکی زبان رہی ہے، کی دفتری و تعلیمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ہے... اس سلسلے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو میں دخیل انگریزی زبان کے الفاظ کو جوں کا توں رہنے دیا جائے تو یہ زبان اور اہل زبان دونوں کے لیے بہتر ہو گا... کیوں کہ وہ دراصل اب انگریزی کے الفاظ رہے ہی نہیں، وہ اردو کے اپنے الفاظ کا درجہ پا چکے ہیں... ان کا بلا ضرورت ترجمہ ہمیں ایک دوسری انتہا پر لے جائے گا، جس سے ابلاغ شدید متاثر ہو گا! 
اس انتہا کی ایک مثال ہمارے درمیان پہلے سے موجود ہے... آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر بعض عربی داں احباب اردو میں فرنگی الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے متبادل عربی الفاظ پیش کر رہے ہوتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ ملعون فرنگیوں کے الفاظ ہیں... گویا وہ غیر ضروری دینی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو کو مسلمان کرنےکی سعی لاحاصل کر رہے ہیں... جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب ان الفاظ کی حیثیت اردو کے اصل الفاظ کی سی ہے... ورنہ صرف نصاریٰ کی زبان ہی کیوں، اس طرح تو پھر اردو میں شامل مجوسیوں کی زبان فارسی کے ہزاروں الفاظ اور ہندوؤں کی زبانی سنسکرت (ہندی) کے سینکڑوں الفاظ بھی ختم کیے جانے چاہئیں... مگر اس طرح اردو، لشکری زبان تو نہ رہے گی، اس آپریشن کلین اپ کے نتیجے میں ہوگا یہ کہ آخر میں صرف خالص عربی ہی بچے گی!
یاد رکھیے کہ غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جائیں، انہیں دخیل کہا جاتا ہے... اور ایک بار جو لفظ زبان میں کھپ جائے تو ان میں اور اصل زبان کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا!... جس طرح دنیا کے کسی بھی خطے کے کسی بھی رنگ و نسل کا انسان اسلام قبول کر لے تو اس نومسلم میں اور پیدائشی مسلمان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں رکھا جاتا... بالکل اسی طرح جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آ گیا تو بس وہ ہمارا ہو گیا...
(البتہ یہ بالکل ممکن ہے کہ اردو میں دخیل دوسری زبانوں کے الفاظ ہماری زبان میں آ کر بھی وہی معنی دیں، جو اپنی اصل زبان میں دیتے تھے... اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے تلفظ اور املا ہی نہیں، معنی بھی ہماری زبان میں آ کربالکل بدل جائیں، جیسا کہ اردو میں لطیفہ کسی ایسی چھوٹی سی کہانی یا چٹکلے کو کہتے ہیں، جسے سن کر ہنسی آئے... مگر لطیفہ کے یہ معنی نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی میں... عربی میں لطیفہ اچھی چیز یا بات کو کہتے ہیں اور فارسی میں بھی لطیفہ انوکھی اور خوب کے لیے استعمال ہوتا ہے!)
کچھ عرصے پہلے ہی ایک بھائی کی پوسٹ میں یہ بحث پڑھنے کو ملی کہ ہم یونیورسٹی کیوں کہتے ہیں، ہمیں جامعہ کہنا چاہیے!... بے شک جامعہ یونیورسٹی کا متبادل ہے جیسا کہ جامعہ کراچی!
مگر ہمارے ہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے الفاظ کو اب”عصری تعلیمی اداروں“ کے لیے قبول عام حاصل ہو گیا ہے... اور وہ گویا اردو کے ہی الفاظ ہو چکے ہیں... بالکل ان پڑھ بھی ان الفاظ کو عام روزمرہ میں بولتا سمجھتا ہے...اس لیے اب یہ بے جا تکلف ہی ہو گا کہ انہیں دینی تعلیمی اداروں کی طرح مکاتب، مدارس یا جامعات کہنے پر زور دیا جائے... اس سے بلکہ نقصان یہ ہو گا کہ دینی تعلیمی اداروں کی تخصیص بھی ختم ہو جائے گی!
البتہ لفظ یونیورسٹی کا چونکہ متبادل لفظ جامعہ کی صورت میں نہ صرف موجود ہے بلکہ استعمال میں بھی ہے...اس لیے دونوں الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ پانی اور آب دونوں اردو میں مستعمل ہیں!
ایک بات اور کہ ایسے دخیل الفاظ پر قواعد اردو کے ہی جاری کیے جاتے ہیں... سو جمع کے صیغے کے طور پر اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کہنا درست نہیں... بلکہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کہنا چاہیے... اسی طرح یونیورسٹی لیول کی جگہ بھی یونیورسٹی کی سطح کہنا اور لکھنا چاہیے!
دخیل الفاظ جذب کر لینے کی یہ صلاحیت دوسری زبانوں میں اگرچہ اردو جیسی نہیں ہے مگر بہرحال ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ابھی حال ہی میں کسی جگہ لاہور کے کردار گلو بٹ کے حوالے سے پڑھی کہ گلو بٹ سے (گلوازم) Gulluism کو باقاعدہ انگریزی زبان کا لفظ تسلیم کر لیا گیا ہے... یعنی لاہور کا ایک متنازعہ کردار گلو بٹ اب انگریزی زبان کا حصہ بن چکا ہے... اسی طرح گیند پھینکنے کا سعید اجمل کا ایک مخصوص انداز ”دوسرا “ اب کرکٹ میں تسلیم شدہ اور اس کی اصطلاح میں شامل ہو گیا ہے!
ایک دکھیا بہن کا دلوں کو چیرتا خط!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چھ ماہ پہلے "خواتین کی حالت زار" کے عنوان سے ایک پوسٹ کی تھی۔۔۔ (جس کا لنک نیچے موجود ہے)
اس کے بعد ہمت ہی نہیں ہوئی اس ضمن میں کوئی تحریر پوسٹ کرنے کی۔۔۔ مگر تین ہفتے پہلے ملنے والے ایک خط نے ایک بار پھرشدید بے چین کر دیا ہے۔۔۔ یہ ایک ذاتی نوعیت کا خط تھا، جس میں نام اور ضروری تبدیلیاں کر کے پبلک کر رہا ہوں۔۔ اس لیے کہ شاید اسی طرح کی کوئی اور میری بہن کسی گھر میں دھیرے دھیرے سسک سسک کر مر رہی ہو۔۔۔ اورکوئی اس کا احساس کر لے۔۔۔
عنقریب ان بہنوں کی پریشانی دور کرنے کے لیے ایک نہایت محدود رفاہی سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ بھی ہے تا کہ جو خواتین دعا کے لیے رابطہ کرتی ہیں، ہم ان کے بھائی ان کے لیے دوا بھی کر سکیں!
٭٭٭
میرا یہ پہلا خط ہے اور میں یہ خط شایع کروانے کے لیے نہیں لکھ رہی۔۔۔ بس آپ سے گزارش ہے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر میرا یہ خط دل سے پڑھ لیں۔۔۔ میں نے آج تک اپنی دل کی بات اپنے رب کے سوا کسی سے نہیں کی ہے۔۔۔ آپ سے بھی اس لیے کہہ رہی ہوں کہ آپ مہربانی فرما کر میرے لیے دل کی گہرائیوں سے دعا کریں، شاید نہیں یقینا آپ کی دعا قبول ہوگی۔۔۔ قبول تو میری بھی ہر دعا ہوتی ہے الحمدللہ! بس پتا نہیں یہ دعا کیوں قبول نہیں ہورہی اب تک۔۔۔ میرے ساتھ بھی وہی مسئلہ ہے جو تقریباً دنیا کی اکثر لڑکیوں کے ساتھ ہے۔ یعنی شادی۔۔۔۔!
شادی کا لفظ میرے لیے وبال جان بن گیا ہے۔۔۔ میری ا ب تک شادی نہیں ہوئی اور عمر 35 سال کے قریب پہنچ چکی ہے۔۔۔ آپ یقین کریں اس دنیا نے میرا دل اتنا چھلنی کردیا نشتر مار مار کر کہ ہر وقت میری آنکھوں میں آنسو رہتے ہیں اوریہ خط لکھتے وقت بھی ہیں۔۔۔ کوئی رات ایسی نہیں جب میں روئی نہ ہوں یا میں نے دعا نہ مانگی ہو یا میں تڑپی نہ ہوں۔۔۔ اور پھر طعنے دینے والے کوئی غیر نہیں، بلکہ اپنے سگے رشتے۔۔۔ ہاں سگی بہن اور بھابھی!
بہن کہتی ہے۔۔۔۔ پتا نہیں کب اس کے رشتے آئیں گے، بڈھی ہوتی جا رہی ہے۔ اکثر بڑی عمر کا طعنہ دینے والی میری سگی بہن ہے!
بھابھی کے الفاظ: "پتا نہیں کب نکلے گی ہمارا جینا حرام کیا ہوا ہے۔"
اور غیروں کے الفاظ (1)تم شادی کیوں نہیں کررہی؟ (2)تم شادی کب کروگی؟ (3) اب تم بھی شادی کرلو! (4) تم کب دعوت کروگی؟۔۔۔ اور اس طرح کی بے شمار باتیں جیسے شادی کرنا اور نہ کرنے کا اختیار میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو ایک منٹ بھی دیر نہ لگاتی۔۔۔ سب بہن بھائی شادی شدہ اپنی زندگی میں مگن، میں گھر میں سب سے چھوٹی، ماں اتنی سیدھی ہیں یا کیا کہوں کہ پوتیاں جوان ہورہی ہیں، ان کے رشتوں کی فکر میں ہلکان اور میری طرف سے آنکھیں بند۔۔۔ 
شاید نہیں یقینا اس لیے کہ ایک بھائی ایب نارمل ہے، اگر میری شادی ہوگئی تو اس کو کون سنبھالے گا؟ پہلے مجھے بھی شادی کا شوق نہیں تھا اور اب بھی نہیں، لیکن اس کے باوجود میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اس دنیا کے طعنوں سے بچنے کی وجہ سے اور سب سے اہم وجہ میں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہتی۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ہمت ختم ہوجائے اور (نعوذباللہ) میں اللہ کی ذات سے بدگمان ہوجاؤں۔۔۔ میں اللہ سے بہت محبت کرتی ہوں، دعا بھی مانگتی ہوں لیکن اپنی بے بسی دیکھ کر اللہ سے شکوہ کر بیٹھتی ہوں کہ آخر میں نے ایسا کون سا گناہ کردیا کہ مجھے اس اذیت سے نجات نہیں مل رہی۔۔۔ میں اس سے غم سے نجات چاہتی ہوں، میں پاک دامنی والی زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔ بس آپ سے التجا ہے کہ میرے لیے خصوصی دعا کریں اور جو لوگ مستجاب الدعوات ہیں ان سے بھی میرا نام لے کر دعا کروالیجیے۔۔۔ آپ پہلے شخص ہیں جس کے سامنے میں نے اپنا دل کھولا ہے اور وہ بھی اس لیے کہ آپ مجھے جانتے نہیں ہیں۔۔۔ پچھلے دس سالوں سے میں یہ اذیت سہہ رہی ہوں۔ اب میں تھک چکی ہوں۔۔۔ آنسو بہا بہا کر بھی اور وظیفے وغیرہ پڑھ پڑھ کر بھی!
اللہ حافظ
آپ کی بہن ک۔ ر
خواتین کی حالت زار
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میرے احباب میں سے اکثر جانتے ہیں کہ مجھے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کی خواتین کے خطوط، ان کے مسائل اور تحریریں پڑھنے کا موقع ملتا ہے! 
ان خواتین میں سے نوے فیصدتک متوسط یعنی سفید پوش گھرانوں کی دین دار باپردہ خواتین ہیں... اور ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کا سب سے بڑا اور شاید مظلوم ترین طبقہ یہ متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ہوتے ہیں... اور اب مجھے یقین ہے کہ ان گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین مردوں سے کہیں زیادہ مظلوم ہیں! 
مجھے یقین ہے کہ میرے فیس بکی احباب میں سے بہت سے احباب شاید اس رائے کو قبول نہ کریں اور شاید انہیں اس میں خواتین کے حقوق کی "مروجہ این جی او ٹائپ تنظیمیوں" کی جھلک نظر آئے ...لیکن ایسا نہیں ہے... خواتین کے حقوق کی تنظیمیں نمائشی تنظیمیں ہیں، وہ دراصل اصل اور فطری "حقوق" جو اسلام نے عورت کو دیے ہیں، کے بجائے عورت کو ناعورت کرنے کا مشن سنبھالے ہوئے ہیں... میں تو دوستو! عین الیقین کی بات کر رہا ہوں... مجھے خواتین کا اسلام میں نو سال ہو رہے ہیں... اور الحمدللہ یہ خواتین کے حوالے سے پاکستان کاسب سے کثیر الاشاعت ہفت روزہ میگزین ہے...یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ مجھے تقریباً ہر ہفتے ہی ڈاک سے روٹین کے خطوط اور کہانیوں کے ساتھ ساتھ ایک دو خطوط یا فون ضرور ایسے سننے کو ملتے ہیں کہ میں آنسو روک نہیں پاتا...تب میں دل سے شکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ نے مجھے مرد بنایا... کل تو ایک ایسا خط پڑھا ہے کہ ہچکیاں بندھ گئیں...پانچ صفحات کے اس خط میں مجھ حقیر سے مشورہ اور دعا کی درخواست کی گئی تھی... میں مشورہ تو کیا دیتا...حیرت سے گنگ رہ گیا تھا... کیا صنف نازک اتنی باہمت بھی ہو سکتی ہے؟...میں نے تصور میں اپنے آپ کو اس بہن کی جگہ رکھ کر دیکھا تو... سوچا کہ شاید میں اس جہنم میں ایک دن بھی نہیں رہ سکوں... یا تو بھاگ جاوں یا مر جاؤں... مگر وہ وفا کی پتلی اپنے گھروالوں کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے برسوں سے جیتی چلی جا رہی ہے...!
جن حالات میں وہ لڑکی زندگی گزار رہی ہے...وہ ناقابل یقین ہیں...شکر کی ایک لہر تھی، جس نے مجھے سر سے پیر تک ڈھانپ دیا...پڑھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے... ایسے خطوط شایع نہیں کیا جاتے...ان بہنوں کا نیک گمان ہے کہ وہ مجھ جیسے جاہل اور گناہ گار کو نہ جانے کیا سمجھ لیتی ہیں اور دعا کے لیے یا مشورے کے لیے خط لکھ دیتی ہیں... یا شاید ایک غم گسار بھائی سمجھ کر دل کا بوجھ ہلکا کر لیتی ہیں...کچھ بہنیں باجی ریحانہ تبسم فاضلی صاحبہ سے کسی وظیفے کی طلب میں لکھتی ہیں... مگر میں نہیں جانتا کہ میں انہیں کیا مشورہ دوں سوائے تسلی کے چند بول اور دعا کے... خط کا جواب بھی نہیں دے سکتا کیوں کہ یہ خواتین ظاہری بات ہے کہ گھر والوں سے چھپ کر ہی خط لکھتی ہیں...ایسے میں صرف اتنا کرتا ہوں کہ کچھ آنسو بہا لوں اور دعا کر دوں... یقین کیجیے کہ اس سے نہ صرف بے حد شکر کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے...بلکہ اس کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ اسلام نے خواتین کو جو حقوق دیے ہیں... آج کل اس پر عمل بہت ہی کم ہے... بے شک ایسے مثالی حضرات بھی ہیں، جنہوں نے اپنی مستورات کو گھر کی ملکہ بنا کر رکھا ہوا ہے... مگر عمومی طور پر حال بہت ہی برا ہے!
خیال تھا کہ ان خطوط کا خلاصہ (نام کے بغیر) احباب کی نذر کروں... مگر مجھے لگتا ہے کہ احباب شاید اس پر یقین ہی نہ فرمائیں یا ... ان کی عام اشاعت کچھ حساس دلوں کو ناگوار گزرے... جب کہ مقصد صرف عبرت اور اصلاح ہے اور بس... شاید اس بہانے ہم میں سے کوئی اپنی اصلاح کر لے!
تو کیا خیال ہے دوستوں کا؟!
٭٭٭
اگلی تحریر کا لنک یہ ہے:
https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236/posts/1136321559730319
بوڑھی ہوتی جوانیاں!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
برسوں کے مشاہدے کے بعد مجھے اب حق الیقین ہو گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر شادی کے قابل (یہاں قابلیت سے مراد عمر، عقل اور شعورہے نہ کہ مالی اسٹیٹس) تمام کنوارے لڑکوں کی شادی ہو جائے تو کسی گھر میں کوئی کنواری لڑکی نہ رہے!
یہاں صرف گھر بیٹھی لڑکیاں ہی بوڑھی نہیں ہو رہیں... لڑکے بھی کنوارے بوڑھے ہو رہے ہیں... اب چاہے وہ کراچی کے بہاری لڑکے ہوں یا مردان کے پختون لڑکے!
اورافسوس کے ساتھ ہی مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ:
ان کنواری لڑکیوں اور لڑکوں کے آپسی رشتے نہ ہونے کا سب سے بڑا سبب ان کے والدین اور قریبی رشتہ دار ہیں جو مادیت پرست معاشرے کے باطل تصورات کی وجہ سے اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کے ارمانوں کا خون کر دیتے ہیں!
https://www.facebook.com/faisal.shahzad.1253236?fref=ts

urdu  writter facebook id
Production and export of bananas and plantains by country (2011)[Note 1]
CountryMillions
of tonnes
Percentage
of world
total
Table 1: Production
 India29.720%
 Uganda11.18%
 China10.77%
 Philippines9.26%
 Ecuador8.06%
 Brazil7.35%
 Indonesia6.14%
 Colombia5.14%
 Cameroon4.83%
 Tanzania3.93%
All other countries49.634%
Total world145.4100%
Table 2: Exports
 Ecuador5.229%
 Costa Rica1.810%
 Colombia1.810%
 Philippines1.69%
 Guatemala1.58%
All other countries6.034%
Total world17.9100%