Tuesday 13 October 2015

اردو میں دخیل انگریزی الفاظ کا غیر ضروری ترجمہ!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج کل سپریم کورٹ کے، قومی زبان اردو کو سرکاری زبان قرار دینے کے نہایت خوش آئند فیصلے کی بابت کتاب چہرہ پر مفید بحث چل رہی ہے... ایک بحث یہ ہے کہ اردو کو سرکار اور تعلیم کی زبان قرار دینے کے بعد جو مسائل سامنے آئیں گے، اس میں سرفہرست انگریزی زبان جو اب تک سرکارکی زبان رہی ہے، کی دفتری و تعلیمی اصطلاحات کو اردو میں ترجمہ کرنا ہے... اس سلسلے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اردو میں دخیل انگریزی زبان کے الفاظ کو جوں کا توں رہنے دیا جائے تو یہ زبان اور اہل زبان دونوں کے لیے بہتر ہو گا... کیوں کہ وہ دراصل اب انگریزی کے الفاظ رہے ہی نہیں، وہ اردو کے اپنے الفاظ کا درجہ پا چکے ہیں... ان کا بلا ضرورت ترجمہ ہمیں ایک دوسری انتہا پر لے جائے گا، جس سے ابلاغ شدید متاثر ہو گا! 
اس انتہا کی ایک مثال ہمارے درمیان پہلے سے موجود ہے... آپ نے دیکھا ہو گا کہ سوشل میڈیا پر بعض عربی داں احباب اردو میں فرنگی الفاظ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے متبادل عربی الفاظ پیش کر رہے ہوتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ ملعون فرنگیوں کے الفاظ ہیں... گویا وہ غیر ضروری دینی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو کو مسلمان کرنےکی سعی لاحاصل کر رہے ہیں... جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اب ان الفاظ کی حیثیت اردو کے اصل الفاظ کی سی ہے... ورنہ صرف نصاریٰ کی زبان ہی کیوں، اس طرح تو پھر اردو میں شامل مجوسیوں کی زبان فارسی کے ہزاروں الفاظ اور ہندوؤں کی زبانی سنسکرت (ہندی) کے سینکڑوں الفاظ بھی ختم کیے جانے چاہئیں... مگر اس طرح اردو، لشکری زبان تو نہ رہے گی، اس آپریشن کلین اپ کے نتیجے میں ہوگا یہ کہ آخر میں صرف خالص عربی ہی بچے گی!
یاد رکھیے کہ غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جائیں، انہیں دخیل کہا جاتا ہے... اور ایک بار جو لفظ زبان میں کھپ جائے تو ان میں اور اصل زبان کے الفاظ میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا!... جس طرح دنیا کے کسی بھی خطے کے کسی بھی رنگ و نسل کا انسان اسلام قبول کر لے تو اس نومسلم میں اور پیدائشی مسلمان میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں رکھا جاتا... بالکل اسی طرح جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آ گیا تو بس وہ ہمارا ہو گیا...
(البتہ یہ بالکل ممکن ہے کہ اردو میں دخیل دوسری زبانوں کے الفاظ ہماری زبان میں آ کر بھی وہی معنی دیں، جو اپنی اصل زبان میں دیتے تھے... اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے تلفظ اور املا ہی نہیں، معنی بھی ہماری زبان میں آ کربالکل بدل جائیں، جیسا کہ اردو میں لطیفہ کسی ایسی چھوٹی سی کہانی یا چٹکلے کو کہتے ہیں، جسے سن کر ہنسی آئے... مگر لطیفہ کے یہ معنی نہ عربی میں ہیں اور نہ فارسی میں... عربی میں لطیفہ اچھی چیز یا بات کو کہتے ہیں اور فارسی میں بھی لطیفہ انوکھی اور خوب کے لیے استعمال ہوتا ہے!)
کچھ عرصے پہلے ہی ایک بھائی کی پوسٹ میں یہ بحث پڑھنے کو ملی کہ ہم یونیورسٹی کیوں کہتے ہیں، ہمیں جامعہ کہنا چاہیے!... بے شک جامعہ یونیورسٹی کا متبادل ہے جیسا کہ جامعہ کراچی!
مگر ہمارے ہاں اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے الفاظ کو اب”عصری تعلیمی اداروں“ کے لیے قبول عام حاصل ہو گیا ہے... اور وہ گویا اردو کے ہی الفاظ ہو چکے ہیں... بالکل ان پڑھ بھی ان الفاظ کو عام روزمرہ میں بولتا سمجھتا ہے...اس لیے اب یہ بے جا تکلف ہی ہو گا کہ انہیں دینی تعلیمی اداروں کی طرح مکاتب، مدارس یا جامعات کہنے پر زور دیا جائے... اس سے بلکہ نقصان یہ ہو گا کہ دینی تعلیمی اداروں کی تخصیص بھی ختم ہو جائے گی!
البتہ لفظ یونیورسٹی کا چونکہ متبادل لفظ جامعہ کی صورت میں نہ صرف موجود ہے بلکہ استعمال میں بھی ہے...اس لیے دونوں الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ پانی اور آب دونوں اردو میں مستعمل ہیں!
ایک بات اور کہ ایسے دخیل الفاظ پر قواعد اردو کے ہی جاری کیے جاتے ہیں... سو جمع کے صیغے کے طور پر اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کہنا درست نہیں... بلکہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کہنا چاہیے... اسی طرح یونیورسٹی لیول کی جگہ بھی یونیورسٹی کی سطح کہنا اور لکھنا چاہیے!
دخیل الفاظ جذب کر لینے کی یہ صلاحیت دوسری زبانوں میں اگرچہ اردو جیسی نہیں ہے مگر بہرحال ہے۔ اس کی ایک دلچسپ مثال ابھی حال ہی میں کسی جگہ لاہور کے کردار گلو بٹ کے حوالے سے پڑھی کہ گلو بٹ سے (گلوازم) Gulluism کو باقاعدہ انگریزی زبان کا لفظ تسلیم کر لیا گیا ہے... یعنی لاہور کا ایک متنازعہ کردار گلو بٹ اب انگریزی زبان کا حصہ بن چکا ہے... اسی طرح گیند پھینکنے کا سعید اجمل کا ایک مخصوص انداز ”دوسرا “ اب کرکٹ میں تسلیم شدہ اور اس کی اصطلاح میں شامل ہو گیا ہے!

No comments:

Post a Comment